68

پختون کی قسمت

یوں پاکستان بننے کے بعد ہم سب پاکستانیوں نے ترقی کی راہ پہ چلتے ہوئے بہت زیادہ تکالیف اٹھائی اور دیکھی۔ 1958 سے لیکر آج تک مختلف ادواروں میں مختلف حکومتوں نے مختلف قسم کی قرضے لیکر ملک کی ان شعبوں میں کچھ حصہ استعمال کیا جنکی صرف اور صرف شارٹ ٹرم میں کچھ فوائد ہو، کسی نے بھی کسی ایسے شعبے میں پیسے خرچ نہیں کئے جن کا ثمرہ آج تک ہو یا مستقبل میں کسی کو دکھائے دے۔ ہر کسی نے پچھلے دور حکومت پہ کئی قسم کے الزامات لگائے کہ انہوں نے خزانہ خالی کرکے چھوڑ دیا اور پھر اگلے حکومت والوں نے بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال سے گزرنا پڑرہا تھا۔ خزانے کا تو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ اب خزانے میں کچھ ہے کہ نہیں تب جاکر حکومت لینی چاہیے کیو کہ اگر خزانے میں کچھ نہ ہو اور آپ حکومت میں آتے ہو تو کس چیز کیلئے آتے ہو ؟؟ ترقی آپ لا نہیں سکتے پیسے آپ خرچ نہیں کرسکتے۔۔۔ احتساب آپ نہیں کرسکتے تو پھر آپ نے آنا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اسی سلسلے میں کوئی جرنیلوں نے کئی دہائیوں تک حکومت چلائی پھر دوبارہ سیول لوگوں کو حکومت مل گئی اور تب سے لیکر پھر سے دونوں خاندانوں نے ملک کو چلانے کیلئے آگے بڑھے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان دونوں خاندانوں کو کئی بار موقع ملا اگر انکا مقصد ملک میں ترقی لانی ہو یا ملک کو آگے لے جانا ہو تو آج تک ہم نے کیوں ترقی نہیں کی؟ ہمارا ملک آج تک کیوں آگے نہیں گیا ہے؟ میں نہیں سمجھتی کہ ان دو مختصر سوالات کا جوابات ہو کیسے کے پاس۔۔۔۔۔ اگر ہو بھی تو صرف یہی کہے گا کہ ہر بار حکومت کو گرائی گئی ہے تو اس جواب کا جواب یہ ہے کہ اگر ہر بار آپ کو یہی لگتا ہے کہ ہماری حکومت آگے نہیں چل سکتی اور ہر بار گرائی جاتی ہے تو اسکا مستقل حل کیوں نہیں نکالتے ؟ یا آپ انکے قدموں میں کیوں گرتے ہو جو آپکی حکومتوں کو گراتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیسے نہ گریں ۔۔۔۔ جب جنرل ضیاء الحق کو کسی سیاسی لیڈر کی ضرورت پڑ گئی جنکو اپنے مخالفین کیلئے استعمال کرتا تھا تو انہوں نے نواز شریف کو بطور سیاست دان بناکر آگے لے آیا اور انہیں سیاست میں دھکیل کر جتوایا اور جب جتوایا تو انہیں وزیراعلی پنجاب بنایا جس کے بعد انہیں ساری طاقت دی گئی اور یوں انہوں نے لوٹ مار کا آغاز شروع کیا کیونکہ انکے پیچھے ابو کا ہاتھ تھا۔۔۔۔
خیر اب بات آگے بڑھ گئی ہے جب مشرف نے پھر سے حکومت کو گرا دیا اور انہوں نے پوری قوم کو غیر کی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی تو سارے سیاست دان انکے ساتھ ہوگئے اور انہیں سیاست دانوں میں کچھ سیاست دانوں نے مخالفت کی لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ کم تھے اسلئے انکی کسی نے کوئی نہ سنی۔۔۔۔۔
اور جنہوں نے مشرف کا ساتھ دیا انکو مختلف قسم کے مراعات دئے گئے اور انکو اتنا سب کچھ دیا گیا جنکے بارے میں انکا کوئی خیال ہی نہیں تھا۔
انہیں سیاست دانوں کی ناقص کارکردگی اور نااہلی کی وجہ سے پوری قوم نے بہت زیادہ تکالیف اٹھائی اور نہ صرف تکالیف اٹھائی بلکہ بہت زیادہ تعداد میں اپنے بہن بھائیوں کے جنازے بھی اٹھائے۔۔
عجیب منطق تھا جہاں بھی کوئی مرتا تھا تو پختون ہوا کرتا تھا ۔۔ عوام مرتا تو پختون پولیس مرتی تو پختون، سیاست دان مرتا تو پختون، فوجی مرتا تو پختون، اعلی افسر مرتا تو پختون حتی کہ کسی بھی شعبے کے ساتھ تعلق رکھنے والا جو بھی انسان مرتا تو پختون ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔
میں کسی فرقہ واریت کی بات نہیں کرتی۔۔۔۔ پختون قوم ہو یا پنجابی، بلوچی ہو یا سندھی۔۔۔ کشمیری ہو یا گلگت والے سارے پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور ساروں کے پاکستان پہ اتنا حق ہے جتنا حق آئین اور قانون میں ہر کسی کو دیا گیا ہے۔ ہم سب لوگ آپس میں بہن بھائی ہے وہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی قوم۔کا ہے تو کوئی کسی اور قوم کا۔۔
لیکن یہاں میں بات حق اور انصاف کی کرتی ہو کہ جتنے بھی لوگوں نے قربانیاں دی ہیں وہ سب کے سب پختون تھے۔۔۔ جتنے بھی لوگ بے گھر ہوئے وہ سب کے سب پختون تھے۔ پختون قوم کی بدولت تو پاکستان نے 1965 کی جنگ جیت چکا تھا۔۔۔ یہ وہی پختون قوم ہے جو 1965 کے جنگ میں اپنے پاکستان آرمی کے جوانوں کے ساتھ مل کر ایک پیچ پہ لڑ رہے تھے۔۔۔ جب لڑ رہے تھے تو اس ٹائم یہ پختون قوم بہادر بھی تھی اور محب وطن بھی لیکن جب بات آگئی امریکہ سے امداد لینے اور ڈالرز لینے کی تو یہی پختون پھر غدار بھی ہوگئے اور دہشت گرد بھی…..
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پشتون قوم کو کیوں اتنے ذلیل کیا جارہا ہے۔۔۔ کبھی دہشت گردوں کے حوالے کیا جاتا ہے کبھی امریکہ کے حوالے کیا جاتے ہیں تو کبھی خود کی طرف سے آپریشن کے ناموں پہ انکو ذلیل کرواتے ہیں کب تک یہ سب کچھ چلے گا۔
اس کے بعد جب پھر سے ان دونوں خاندانوں کو حکومت مل گئی تو وہی دھماکے وہی ڈرون طیارے وہی دہشت گردی اور وہی ذلالت ۔۔۔ جس کی وجہ سے پختون قوم بہت زیادہ بری طرح متاثر ہوئی۔ پختون قوم۔ہر چیز کے لحاظ سے متاثر ہوئی ۔جب ان دو خاندانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی تیسری سیاسی پارٹی کو پہلی بار حکومت مل گئی جنہوں نے حکومت میں آنے سے پہلے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ حکومت میں آنے کے فوراً بعد انکو کئی طرح کے چیلینجز کا سامنا تھا جن میں معاشی اصلاحات, سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات، بیرونی روابط اور کاروباری شعبے میں بھی کئی طرح کے چیلینجز کا سامنا تھا اور ساتھ ساتھ پوری دنیا کا اچانک کرونا کی وجہ سے بند ہونا بھی ایک بہت بڑا سرپرائز تھا۔
ایک تو حکومت کو اپنے ہی ملک میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے تھے کیونکہ انکی حکومت کی شروعات سے باقی جماعتوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے اور ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ اچانک کاروبار بند ہونا بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔
لیکن نئی حکومت کی اچھی خاصی کارکردگی اور سوچ سمجھ سے لینے والے فیصلوں کی وجہ سے ملک کو اتنی تباہی نہ دی جو پوری دنیا میں ہوچکی ہے۔ دیگر سارے ممالک بری طرح متاثر ہوچکے تھے لیکن جو نہیں ہوا تھا یا کم ہوا تھا وہ تھا پاکستان۔
معاشی استحکام انکا سب سے پہلا حدف تھا جس میں وہ کچھ حد تک
وہ کامیاب ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے لیکن ساتھ ساتھ مہنگائی نے جنم لیا تھا کیونکہ بیرونی دنیا کی بندش کی وجہ سے ساری قیمتیں بڑھ گئیں تھی جسکی وجہ سے مہنگائی میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا تھا ۔ مہنگائی اپنی جگہ لیکن پختون قوم کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں پہلی بار عزت ملنا شروع ہوگئی۔ خان صاحب کے جتنے بھی دورے ہوئے تھے سب کے سب دوروں میں انہوں نے مغربی لباس کے بجائے اپنے پختون کلچر کو اہمیت دی اور ہر دورے پہ پختون کلچر کے لباس پہن کر پختون قوم کی ایک بڑی نمائشی انداز میں پیش کیا۔ ساری دنیا کو ایک پیغام دیا کہ پختون قوم ایک محب وطن اور بہادر قوموں میں سے ایک ہے۔۔ اور ساتھ ساتھ جو امن و امان پہلے سے خراب تھی انکو بہتر طریقے سے امن و امان میں تبدیل کروایا ۔۔۔ اور ساری دنیا کو باور کروایا کہ میں ہر کسی کے ساتھ دوستی تو کرسکتا ہوں لیکن کسی کی غلامی ہر گز قبول نہیں ۔۔ جو لیڈر بک نہیں سکتا، جو لیڈر کوئی خرید نہیں سکتا تو کوئی بھی بیرونی قوت انکو ہرا نہیں سکتا اور نہ انکے ملک میں انکی ریاست میں کوئی دہشت گردی پھیلا سکتے ہیں۔۔۔۔یہ وہ دور تھا جو پختونوں نے پہلی بار بخوشی گزارا اور سب کے سب امن و امان میں رہ رہے تھے۔ لیکن کچھ مفاد پرستوں نے انکو بھی نہیں بخشا اور انکی حکومت کو گرانے میں ہر کسی سے مل گیا اور ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر انکی حکومت 9 اپریل کی رات 12 بجے گرائی ۔۔۔۔ تب سے لیکر آج تک پاکستان میں پھر سے اس دہشت گردی کی فضاء چل پڑی ہے اور پھر سے ان پختونوں کو ٹارگیٹ کیا گیا ہیں۔ اور انکا ثبوت حال ہی میں پشاور میں ہونے والے دھماکے کی ہے جو کچھ ذرائع یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ یہ خودکش نہیں بلکہ ڈرون تھا ۔۔۔ وہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر ڈالروں کی کمی آئی ہیں جنکو پورا کرنے کیلئے ایک بار پھر پختونوں کو قربانی دینی پڑے گی۔ اب یہ پختون قوم پہ انحصار کرتی ہے کہ یا تو چل اٹھ کر اپنے حقوق مانگے یا خاموشی سے تماشا کرتے رہے ۔۔ لیکن یہ بھی مت بھولئے میں آپ سب پختون قوم کو اس کالم کے ذریعے آگاہ کر رہی ہوں کہ پشاور دھماکہ آخری نہیں ہے اب آگے بھی ہونگے بس دیکھتے جائیں ۔ لیکن ہمیشہ یہی دعاگو رہوں گی کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے اور ہر پاکستانی کو سپیشلی پشتون قوم کو سلامت رکھے آمین ثم آمین۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا ” میں رہوں یا نہ رہوں لیکن کبھی بھی کسی ایسے لیڈر کو منتخب نہ کرنا جو تمھیں غلام بنادے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں