تحریر: محمد اصغر ملک
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں ایک عظیم اسلامی مملکت پاکستان کا شہری ہوں جہاں ایک بہت بڑی قوم آباد ہے ، اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی طرح کیوں اپنی پہچان بنا نہیں پائے ، درحقیقت بات یہ ہے کہ قومیں اپنے شہریوں کے شخصی کردار اور کارکردگی سے پہچانی جاتی ہیں اور تسلیم شدہ معیار بھی یہی ہے ، اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ایک مکمل ضابطہ ء حیات رکھنے کے باوجود اس معیار کو کیوں نہیں پہنچ سکے جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں کی حیثیت سے ہمارے کردار کی تشکیل اور بہتری کے لیے دین اسلام نے حدود و قیود واضح کر دی ہوئی ہیں ، ماں باپ ، بہن بھائی ، اقرباء اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کے علاوہ حلال حرام اور حتاکہ لباس تک بے شمار عوامل کا تفصیلی ذکر موجود ہے تاکہ ہم اپنے کردار کے ذریعے خود کو ایک بہتر انسان کے طور پر پیش کر سکیں ، سونے پر سہاگا رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور صحابہ کرام رض کی پیروی نے زندگی اور آخرت کی بہتری کے لیے عبادات سے لے کر تمام معمولات زندگی کی انجام دہی آسان بنا دی ، دین میں جن حدود کا تعین کیا گیا ہے وہ کوئی جبر نہیں بلکہ ہماری دنیا و آخرت کی حفاظت اور بلند کردار کے لیے فلسفہ ء حیات ہے ۔
بات عظیم قوموں کے شہریوں کی پہچان سے چلی تھی جس کے لیے کردار کے اوصاف سامنے رکھے کیونکہ اس کے بغیر نتیجہ خیز کارکردگی ممکن نہیں ہو سکتی جس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے میں قائد اعظم کا قول “کام کام اور کام”پیش کرتا ہوں کیونکہ یہی واحد راستہ ہے جس سے قومیں بنتی اور ترقی کی منازل طے کرتی ہیں ، اگر کسی کے پاس کوئی اور طریقہ ہے تو بتایا جائے ،مفکر پاکستان علامہ اقبال رح نے بھی یہی نکتہ بیان فرمایا کہ “عمل سے زندگی بنتی ہے” عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشی ترقی کے لیے ہمیں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ۔
یہ جائزہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ملک میں کون سے منفی عوامل ہماری کارکردگی پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں ، یقیناً ان میں آبادی کا بے تحاشا بڑھنا ، دہشت گردی ، منشیات کا کاروبار اور استعمال ، چوری ڈاکے ، اسٹریٹ کرائمز ، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ، جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری ، بچوں کا اغواء اور قتل و غارتگری ، کاروبار میں لوٹ مار و دھوکا دہی شامل ہیں ،بھوک افلاس کا یہ عالم ہے کہ کہ لوگ آٹے کے حصول کی خاطر قطاروں میں کھڑے مر رہے ہیں اور ارباب اقتدار اس معاشرتی بگاڑ کو درست کرنے میں بے بس نظر آتے ہیں ، ان خرابیوں نے نہ صرف ملک کا معاشی ڈھانچہ تباہ کیا بلکہ سکیورٹی ، انصاف اور دیگر قومی اداروں پر اتنا زیادہ دباؤ پڑا کہ ان گنت شہادتوں اور اخراجات میں بے پناہ اضافے کے باوجود ان کی کارکردگی پر بے شمار سوالات اٹھنے لگے ۔
ملک میں پھیلی برائیوں اور معاشی گراوٹ کا سبب شہریوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہے جنہوں نے بغیر محنت کیے ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کو وطیرہ بنا لیا ، دنیا کے بڑے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنے کام اور ایجادات کی آمدن سے اوپر آئے اور ہم لوٹ کھسوٹ کے باعث پاکستان کو بہت پیچھے لے گئے ، ملک جب آزاد ہؤا تو کردار اور کارکردگی ہماری پہچان تھی، باہر کے ممالک یہاں صنعتیں لگا رہے تھے، ہم کئی ممالک سے آگے تھے، ہماری کرنسی مضبوط تھی لیکن پھر استحصالی طبقات کی لوٹ مار نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا، یہاں ایک ذاتی واقعہ بیان کرتا چلوں، سرکاری ملازمت کے دوران میں پاکستان آئی ہوئی ایک جرمن ٹیم کے ساتھ کام کر رہا تھا، وہ مجھ سے پوچھتے تھے کہ پاکستانی لوگ جسمانی طور پر مضبوط اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہیں تو پھر آپ کا ملک ترقی کیوں نہیں کرتا، اس بات کا جواب اس وقت مشکل تھا لیکن آج آسان ہے۔
میں پاکستانی قوم کی پہچان اس کے کردار اور کارکردگی سے چاہتا ہوں، کام کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، کسی ملک کے پاس تیل کی دولت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک وہ جدید ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں مہارت حاصل نہ کر لے ، دنیا چاند کے بعد مریخ تک جا پہنچی ہے ، یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی جب علامہ اقبال رح نے کہا تھا
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا “میں نے تمہارے لیے زمین و آسمان مسخر کر دیے” ہماری خوابیدہ قوم میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ثمر مبارک مند جیسے عظیم لوگ بھیج کر ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا ۔
قوم کو کام کی طرف راغب کرنے کے لیے اسلامی تاریخ کی یہ روشن مثالیں کافی ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مل کر بکریاں چرائیں ، جوان ہونے پر گھر واپس آئے تو نو بکریوں اور ایک اونٹنی سمیت دیگر جانوروں اور گھر کی دیکھ بھال کرتے رہے ، حضرت خدیجہ رض کے مال تجارت کے امور انجام دیے ، حضرت ابوبکر صدیق رض خلیفہ مقرر ہونے کے باوجود کپڑا بیچ کر گزر اوقات کرتے تھے ، قبل از اسلام حضرت داؤد جیسے پیغمبر اور بادشاہ نے روزانہ ایک زرہ بکتر بنا کر اپنا خرچہ چلایا ، یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کام کرنا دراصل پیغمبروں کی پیروی کرنا ہے ، اس عقیدے پر یقین کے ساتھ کام کیا جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً اپنی برکتوں سے نوازے گا ۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے چند برسوں بعد کئی شہروں میں صنعتی اور ہینڈی کرافٹ کا معیاری کام ہو رہا تھا جو ایکسپورٹ میں مددگار تھا ، مثال کے طور پر گوجرانوالہ اور وزیر آباد میں انڈسٹری سیٹ اپ کا بھاری سامان اور صحت کے شعبے میں استعمال ہونے والے آلات بنتے تھے ، پشاور میں پیتل اور تانبے کے برتنوں پر رنگین کندہ کاری ، سندھ میں کپڑوں پر رنگ اور دھاگے کا کام جو آج بھی چل رہا ہے ، ان سے ملکی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہو رہا تھا ، پاکستان میں سونے چاندی کے زیورات بن کر متحدہ عرب امارات میں فروخت ہوتے تھے ، بھارت نے مشینوں پر کام کے ذریعے ڈیزائننگ اور پیداوار بڑھا یہ مارکیٹ ٹیک اوور کر لی اور ہمارے کاریگر بے روزگار ہو گئے ، یہ سارا نقصان حکومتی سرپرستی اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے ہؤا ۔
چند سال پہلے جب سوزوکی کمپنی کی چھوٹی گاڑیاں پاکستان میں اسمبل ہونا شروع ہوئیں تو جاپان سے کمپنی کا ایک اعلیٰ عہدے دار پاکستان آیا ، ہوائی اڈے پر صحافیوں نے سوال کیا کہ ہمارے کام میں کیا کمی ہے تو اس نے فوراً کہا کہ یہاں کوالٹی اور مینیجمینٹ کی کمی ہے ، کچھ عرصہ قبل میں یو اے ای گیا تو وہاں سپر اسٹورز پر فروخت ہونے والی سبزیوں اور چاولوں پر بھارتی لیبل چسپاں دیکھے جبکہ یہ دونوں چیزیں پاکستان سے ایکسپورٹ ہو رہی ہیں ، دنیا بھر میں پاکستان کا باسمتی چاول اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے لیکن اس پر انڈین لیبل پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات کمرشل اتاشیوں کی کام چوری کا واضح ثبوت ہے جو بڑے قومی نقصان کا باعث ہے۔
مفکر پاکستان نے کہا تھا”شمشیر وسناں اول طاؤس و رباب آخر” جبکہ ہمارے ہاں بدترین معاشی صورت حال اور بھوک افلاس کے باوجود کام کرنے کے بجائے میڈیا پر نوجوان نسل کو اچھل کود اور بے حیائی کی طرف راغب کر کے دین کی حدیں توڑی جارہی ہیں، یہ فضول اخراجات اور وقت کا زیاں جلسوں میں بھی کیا جا رہا ہے، ہمارے ان کرتوتوں کے باعث پاکستان میں الیکٹرک انجنئیرنگ پراجیکٹ کی بات ہوئی تو جواب میں روس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ لوگ ورکنگ مائنڈ نہیں، کیونکہ روس کراچی میں لگائی گئی اسٹیل ملز کا بدترین حشر دیکھ چکا تھا جہاں سے ہمیں دو سو قسم کا اعلیٰ کوالٹی کا اسٹیل ملتا تھا جس سے ہیوی مشینری بنانے میں مدد ملتی تھی، ہم نے سیاسی بھرتیوں کے ذریعے اسے اربوں کے سالانہ خسارے پر ڈال دیا، یہی حشر ہم نے فلپس کمپنی کے لگائے گئے الیکٹرانکس پرزہ جات پراجیکٹ سمیت کئی دیگر بیرونی منصوبوں کا بھی کیا ، لاہور میں آٹومیٹک روٹی پلانٹ کی بربادی بھی اسی طرح کی گئی ، فیکٹریاں لگانے کے لیے لاکھوں لوگوں نے کروڑوں اربوں کے قرضے لے کر ضائع کر دیے ۔
ملک میں اسمبلیوں اور حکومتوں کے ہوتے ہوئے ہم معاشی طور پر فلاپ ہو گئے ، آخر اس بربادی کا ذمہ دار کوئی تو ہو گا ، آنے والی نسلوں کے پاس اس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے کیا حل ہو سکتا ہے ؟ ان مثالوں اور واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارا کردار اور کارکردگی منفی ہونے کے باعث نہ صرف بے نتیجہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی گناہ ہے لیکن یہ فرمان واضح ہے کہ “قوموں کی قسمت تبدیل نہیں ہوتی جب تک وہ اس کے لیے خود کوشش نہ کریں” علامہ اقبال رح نے بھی اسے یہ کہہ کر آسان بنا دیا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں اپنی حالت بدلنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے کام ترقی کے جدید تقاضے بروئے کار لا کر کام کام اور کام پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی ، ہم نے مزید روگردانی کی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ، ہمیں اپنی پیدا کردہ اس خرابی کو خود ہی دور کر کے جانا چاہیے ، اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اور ہماری مدد فرمائے آمین ۔
میں عمر رسیدہ شخص ہوں ، میں نے 1946 ء کے انتخابات دیکھے ہیں ، اس وقت میں جماعت ششم کا طالب علم تھا اور گاؤں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ “بن کے رہے گا پاکستان” کے نعرے لگائے ، ریڈ کلف کمیشن نے طے شدہ معاہدے کے خلاف پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے ، پنجاب میں گورداسپور ضلع پر چھری پھیری اور بھارت کو جموں کشمیر تک رسائی دے دی ، پھر جو کچھ مسلمان کہلانے والوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کیا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا ، اس مضمون میں جو کچھ بھی میں نے لکھا ہے وہ میرا ذاتی مشاہدہ اور تاریخی حقائق ہیں ، میری التماس ہے اپنی آنے والی نسلوں اور ملک کی بقاء کے لیے اپنے کردار کو قرآن حکیم میں بار بار کی گئی تاکید کے مطابق بہتر اور اپنی کارکردگی کو قومی پہچان بنائیں تاکہ ملک و قوم کا مستقبل روشن ہو اور دنیا ہمیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے ۔