(نسیم الغنی)
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ کانفرنس، سیمینار، مذاکرے اور بہت کچھ کرنے کے باوجود مثبت کچھ نہیں سامنے آیا صرف بگاڑ کی خبریں اور رپورٹس سامنے ہیں۔ جبکہ سائنس دان، ماہرین ماحولیات اور ماہرین ارضیات سب ہی دنیا کو خبردار کررہے ہیں مگرلگتا ہے اکثریت پر کوئی خاص اثر نہیں ہورہا ہے…
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے اس ضمن میں خبریں عام ہورہی تھیں۔ ماحولیات پر اور آلودگی میں اضافہ پر کھل کر بہت کچھ کہا جارہا تھا، مگر آگہی نہ ہونے کے برابر تھی اور اب بھی لگ بھگ اسی نوے برس گزرنے کے باوجود عوام میں موسمی تغیرات کے نقصانات اور قدرتی ماحول میں بگاڑ کے سلسلے میں وہی آگہی کا فقدان ہے۔ تمام میڈیا ہائوسز، تمام ذرائع بچوں ، طلباء اور عام افراد کو بتایا جائے انہیں ان کی زبانوں میں سمجھایا جائے شاید کوئی بات بن جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گیٹریس نے گلاسگو کی عالمی کانفرنس کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ یہاں موجود ہر فرد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ، لاکھوں کاروں، مال بردار ٹرکوں، ریل گاڑیوں اور دیگر گاڑیوں کے نکلنے والا کثیف دھواں ناک، حلق اور سینے کی مضر بیماریوں کا سبب بنتا ہے، اس طرح کیمیکل وغیرہ کا آلودہ پانی سمندر یا کھیتوں میں بہایا جاتا ہے اس سے آبی حیاتیات کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ آلودہ پانی میں اُگی فصلیں مثلاً اناج، سبزیاں اور فروٹ وغیرہ سے انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے خاص طور پر بچے بہت متاثر ہورہے ہیں، پھر یہ کہ موسمی تبدیلیاں نے بعض خطوں میں سیلابوں، طوفانوں، موسلادھار بارشوں اور خشک سالی سے بڑے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں اگر قدرتی ماحول میں تبدیلیاں ہوتی ہیں ان تبدیلیوں کا سدباب بھی قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ ایسا ماضی بعید میں بھی ہوتا رہا ہے، مگر جاری تبدیلیاں قدرتی نہیں ہیں۔ تبدیلیاں انسانی عمل کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے زمین پانی اور فضا میں زہریلے اور کیمیا فاضل مادے ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں زمین کے فطری ماحول میں بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ زہر آلود ہوتی جاری ہے۔ جو پانی ہم پی رہے ہبں وہ مضر صحت بنتا جارہا ہے۔ جو اناج، سبزیاں، فروٹ ہم کھا رہے ہیں، اس کے ساتھ زہریلے مادے ہمارے جسم میں داخل ہورہے ہیں۔صرف یہی مسائل نہیں ہیں بلکہ آواز و شور کی آلودگی بھی ہماری سماعتوں کے لئے بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ گلاسگو کی عالمی کانفرنس میں فنڈز کے حصول اور تقسیم پر بعض سوالات اٹھائے گئے تھے، جس پر بعداز کانفرنس بھی مذاکرات جاری ہیں۔ اس عالمی فنڈز میں سے ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد دی جائے گی کہ وہ ماحولیات میں سدھار لانے اور آلودگی میں کمی کرنے کے اقدام کریں گلاسگو کانفرنس سب سے بڑی عالمی کانفرنس تھی اس میں بھی ماحولیات موضوع تھا۔ اس کانفرنس میں یہ اہم بات سامنے آئی کہ کلین ٹیکنالوجی کو تیزی سے فروغ دینے کی پیہم جدوجہد جاری ہے۔
گلاسگو کانفرنس نے عالمی فنڈز کا ہدف رکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کتنا فنڈ جمع ہوتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے بڑے فنڈ کی توقع کی جارہی ہے۔ ماہرین نے دنیا میں شجرکاری پر بہت زور دیا ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ خدشات ہیں کہ 2030ء تک کرہ ارض بہت زیادہ قدرتی آفات کا شکار ہوگا۔
عالمی سطح پر مختلف ترقی یافتہ ممالک کے تحقیقی ادارے اپنی اپنی رپورٹس اور جائزوں میں قدرتی ماحول میں بگاڑ، آلودگی میں اضافہ اور اس کے موسمی تبدیلیوں پر اثرات کے حوالے سے انکشافات کرتے ہیں، مگر گھوم پھر کے بات وہیں آکر ٹھہرتی ہے کہ ان تمام ماحولیاتی مسائل کا سدباب کون کرے گا۔