کرپشن کہانیوں کے پلندے ریاست کے قد کاٹھ سے اونچے ہوگئے چہ میگوئیاں ہر طرف تھیں مگر اپنی اپنی حکومتوں میں اداروں کو استعمال کرکے کالے دھن کو چاندی کیا جاتا رہا جائیدادیں بنانے میں اِن اور خبروں میں آوٹ رہنے کے لیے ہمیشہ سے ہی قلم خریدے گئے کالے کرتوت اخبار کے موٹے سیاہ قصیدوں تلے چھپانے والے چھپاتے رہے کیمروں کا بھی دور آیا فوجی جرنیل نے نجی چینلز کو “کھلی” چھٹی دی ٹاک شوز ہوں یا تجزیے ،ایوانوں سے لیکر جھگیوں تک کا واقعہ، ہر بیان، ہر تجزیہ بریکنگ نیوز بنا چینل مالکان نے بھی اشتہارات پر اکتفا نہ کیا ریاستی اداروں سے لیکر صرف ایک نمائندے پر کھڑی پارٹی تک سے “تعلقات” استوار رکھنے کے لیے قلم کے مزدوروں کو “مزدوری”پر لگائے رکھا۔۔ان میں سے کچھ اس قدر محبوب ہوگئے کہ انکی بھرتیوں سے لیکر پھُرتیوں تک ساری ڈوریاں کہیں اور سے ہلنے لگیں۔۔
چینلز کی بھرمار نے لوگوں کو بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے خبر ہے یا ایجنڈا ہے ،سازش ہے یا مداخلت کسی کے پلے کچھ نہیں پڑا بس جس “پائے” کا صحافی ہوگا اسی اہمیت کی حامل کہانی اور پھر سونے پر سہاگہ کہیں یا صحافت کی تنزلی کہ اخبار اور ٹی وی کے صحافیوں کے بعد ٹوئٹری صحافیوں نے میدان سجا لیا۔۔کچھ نے تو باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو معیار صحافت بنا لیا نہ اخلاقیات رہیں نہ احترام اور نہ ہی اپنے شعبے کا تقدس بس جس نے جہاں ہانک دیا چل پڑے۔۔عوام کن حالات میں ہیں انکو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے دعوے کس حد تک سچے ہیں انکے حقوق ریاست کس حد تک پورے کر رہی ہے کہاں کہاں اور کس سے عوام کے ٹیکس کے پیسے میں خیانت ہورہی ہے عوام کے خادم کہاں حاکم اور غاصب بنے بیٹھے ہیں اس طرف اب کم ہی کسی صحافی کے کان کھڑے ہوتے خصوصاً رجیم چینج کے بعد تو ریاستی وحشت و خوف کے سائے اس حد تک مہیب ہوگئے کہ دو لفظ حق سچ کہہ دینے پر بھی بغاوت کے مقدمے درج ہونے لگے رات کے اندھیرے میں صحافیوں کے گھر چھاپے،چادر چار دیواری کے تقدس کی پامالیاں،گرفتاریاں اور تو اور مالکان کو احکامات دیکر نوکریوں تک سے فارغ تک کروایا گیا اس بات سے نہ آپ انکار کریں گے نہ میں کہ پابندیاں پہلے بھی لگیں حملے پہلے بھی ہوئے لیکن صحافیوں پر جو ظلم و بربریت کے پہاڑ متحدہ جماعتوں کی اس حکومت میں توڑے گئے اسکی مثال پچہتر سالوں میں نہیں ملتی۔اس سب کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے پہلے کرپشن کی داستانیں وہ عوام میں لائی گئیں جو صرف سیاستدانوں سے متلعق تھیں لیکن تاریخ میں پہلی بار ریاست پاکستان کے ہر کرپٹ عناصر کو بےنقاب کیا جانے لگا پروگرامز بند ہوئے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بدعنوان عناصر کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔۔
کیا لکھوں اور کہاں تک لکھوں ایک بیانیہ بنا کر میڈیا مالکان کو دے دیا گیا صحافت کو رٹو طوطے کی طرح رٹایا گیا کہ جو اب آئے ہیں وہ اور انہیں لانے والے دودھ سے دھلے فرشتے ہیں اور جنہیں حکومت سے نکال دیا گیا وہ باغی،غدار،دہشتگرد،کرپٹ،مذہب اور اداروں کی توہین کرنے والے ملک دشمن لوگ ٹھہرے یہ بیانیہ جو جس قدر پھیلائے گا وہ اتنا بڑا صحافی کہلائے گا اور بدقسمتی سے اس حکم پر ہمادے شعبے سے تعلق رکھنے والے “مخصوص اینکرز اور صحافیوں” نے لبیک کہا پھر اس قدر جی حضوری میں لگے کہ قلم کا اصل مقصد ہی بھلا بیٹھے یہ بھی دکھائی نہ دیا کہ عوام غربت سے بلک رہی ہے آٹے کے حصول میں جانیں جا رہی ہیں مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے کرپشن میں سر تا پا لتھڑے ہوؤں ہر کوئی ملک اعتبار نہیں کر رہا سارا نظام ہل چکا ہے وہ سیاستدان جب پر اربوں کھربوں کے الزامات ہیں وہ پاکستان آکر نیب ترامیم کے کنویں سے پاک ہو کر نکل رہا ہے کابینہ کے وزیر مشیر بڑھتے اور زر مبادلہ کے ذخائر گھٹتے جارہے ہیں ملک میں غیر یقینی بڑھتی جارہی ہے روپیہ گرتا جارہا ہے حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں مگر یاد رہا تو بس اتنا کہ جانے والے کو مزید گرانا ہے چاہے اسمیں نقصان ملک کا ہی ہوتا رہے۔
ایسے میں کچھ صحافیوں نے قلم کا بھرم قائم رکھا کرپٹ کو کرپٹ کہا تمام مقدس گائیں جن کی کرپشن پر کوئی خبر دینے کی جرات نہ کر سکتا تھا انکے اگلے پچھلے ریکارڈ کھول کر عوام کے سامنے رکھے توشہ خانہ ہو یا ملکی خزانہ کس کس نے مال سمیٹا انکے نام بشمول عہدوں کے سامنے لائے گئے سچ بولنے کی اس پاداش میں چینلز سے نکلوایا گیا وہاں بھی غصے کی آگ ٹھندی نہ ہوئی تو وطن کی زمین تنگ کرکے دیار غیر لے جاکر تشدد کیا مارا پیٹا اور زندگی چھین لی یہ یقیناً اسلیے کیا گیا ہوگا کہ اب کسی کی ہمت نہ ہو سچ کہنے کی حق بولنے کی جو اسکرپٹ دیا جائے صرف اسی کو پڑھ کر پھیلانے کو صحافت کہا جائے لیکن نہیںارشد شریف شہید کی شہادت نے سیاہ ہوتی صحافت کو ایک امید دی ہمت دی حوصلہ دیا اگر حق سچ کہنے کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے تو اس موت کے خوف سے اس شہید صحافت نے ہر بہادر لکھاری اور قاری کو رہائی دی اور آج چاہے آپکو چینلز سے آف اسکرین کیا جائے آپکو سول کپڑوں میں بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں ڈالا جائے آپ پر قدغنیں لگائی جائیں سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر دھمکیاں دی جائیں لیکن اب سچ چھپانے والوں کا کام بنتا دکھائی نہیں دیتا جو اصل ہوتا ہے وہی اکثریت دکھاتی ہے جو سچ ہوتا ہے وہی بتاتی ہے جو حق ہوتا ہے وہ سناتی ہے اور وحشت کے اس بت کو توڑنے کا سہرا صرف اور صرف شہید ارشد شریف کو ہی جاتا ہے۔۔ آپ آذادی صحافت کا یہ دن جس کو چائیں وقف کریں لیکن میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے ارشد شریف شہید کے نام ہی کرونگی شکریہ ارشد بھائی! ریاست پاکستان کو بدعنوان عناصر سے الرٹ رکھنے اور انکی نشاندہی کرنے کے لیے،صحافت کے حقیقی معنوں سے آشنا کرانے کے لیے،تحقیقاتی صحافت کیا ہوتی ہے یہ سمجھانے کے لیے،وطن کی محبت کو ہر شے سے مقدم رکھنے کا جذبہ سونپنے اور شہادت کے عظیم درجے سے متعارف کرانے کے لیے شکریہ ارشد شریف شہید جب تک اس دنیا میں آخری قلم کا مزدور زندہ ہے آپکی صحافتی کاوشیں اسکی تاریک اور مشکل راہ کو روشن رکھیں گی ۔